عید کے موقع پر ملا ہیبت اللہ نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ہم مسائل حل کرنے کو تیار ہیں لیکن شریعت سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سراج حقانی نے طالبان سے کہا تھا کہ وہ سختی کرکے حکومت اور افغان عوام میں فاصلے نہ بڑھائیں۔ حقانی کا کہنا تھا کہ 40 سال کے مسائل اور مشکلات کے بعد لوگوں کا احساس کریں۔ ’ہماری خواہش تو ہے لیکن جو نظام آپ لانا چاہتے ہیں وہ فوری ممکن نہیں ہے‘۔
عبدالباقی حقانی نیشنل ایگزایمینیشن اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ماڈرن سائنس ہی ہمیں خود مختار کرسکتی ہے اور دوسروں پر ہمارا انحصار ختم کرسکتی ہے۔ روایتی تعلیم کے ساتھ اس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
محمد نبی عمری ڈپٹی منسٹر برائے داخلہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ سسٹم صرف ملا نہیں بنا سکتے، میں اور میرے بڑے غلطی پر ہیں اگر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی ٹھیک ہیں۔ صرف جہادی اور طالب نظام نہیں چلا سکتے۔
ملا ہیبت اللہ کی سخت گیر پالیسی کی مخالفت میں آوازیں اب تواتر سے اٹھ رہی ہیں۔ افغان طالبان پر ملا ہیبت اللہ کی گرپ مضبوط ہے لیکن جو ان کی پالیسی پر تنقید کر رہے ہیں وہ سب بھی طالبان حلقوں میں بہت بااثر ہیں۔
افغان طالبان کو اپنے تنظیمی ڈسپلن پر ناز تھا۔ اب ان کے اندر اختلافات دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔ وردگ ایک ایسا صوبہ تھا جہاں سے طالبان کو بہت فائٹر فورس دستیاب رہی۔ اس صوبے کے نوجوان 4 دن تعلیمی اداروں میں جاتے تو 3 دن فرنٹ لائن پر لڑنے پہنچ جاتے۔ اتحادی افواج کے خلاف اس صوبے میں روزانہ کارروائیاں ہوتی تھیں۔
اب سوشل میڈیا پر اسی علاقے سے بے چینی کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ وردگ سے بڑی تعداد میں داعش کو بھرتی حاصل ہوئی ہے۔ داعش افغان طالبان کی صفوں میں سرائیت کرچکی ہے۔ صفائی کا عمل بھی جاری ہے۔ نچلے لیول پر طالبان کو تنظیم سے نکالا بھی گیا ہے۔ اب یہ الزامات بھی لگ رہے ہیں کہ نچلی صفوں سے جن کو نکالا جارہا ہے ان کا تعلق صرف مشرقی صوبوں سے ہے۔ قندھار اور ہلمند سے کسی کو نہیں نکالا گیا۔
ٹی ٹی پی بھی اٖفغان طالبان کے لیے ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ ہے۔ افغان مہاجرین کو نکالنے کے دوسرے مرحلے کا بھی آغاز ہورہا ہے۔ محمد نبی عمری نے رمضان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹی ٹی پی پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بھائیوں (ٹی ٹی پی) سے کہتے ہیں کہ آپ مذاکرات کریں۔ آپ (ٹی ٹی پی) 100 سال لڑتے رہیں جیت جائیں، گورنر اور وزیر بن جائیں ہمیں اس سے بھی غرض نہیں۔ آپ اسے جنگ کہتے ہیں یا جہاد اس کو چھوڑ دیں۔ ہم نے جنگیں اور انقلاب دیکھے ہیں، یہ پیچھے صرف تباہی، بیوائیں، یتیم، کھنڈرات اور تباہ معیشت ہی چھوڑتے ہیں۔
پاکستانی اداروں کے لیے عمری کا پیغام یہ تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی تعداد ڈبل کر کے بھی لڑائی ختم نہیں ہوتی۔ محمد نبی عمری کا تعلق خوست سے ہے۔ ان کو خوست کا گورنر بھی بنایا گیا تھا۔ یہ گوانتانومو بے میں 12 سال قید رہے ہیں۔ خوست میں ٹی ٹی پی فائٹر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہیں ایک افطار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمری نے ٹی ٹی پی اور پاکستان کو مذاکرات کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے اٖفغان طالبان حکومت کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
عمری کا خوست میں بیٹھ کر یہ اقرار کرنا اور کہنا بہت اہم ہے۔ یہ بہت با اثر طالبان رہنما ہیں۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف پریشر کو محسوس کررہی ہے۔ وزیر خارجہ امیر خان متقی، وزیر دفاع ملا یعقوب کے علاوہ عباس ستناکزئی طالبان امیر کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف عوامی اجتماعات میں بات کرچکے ہیں۔
ملا برادر اس وقت کارکردگی کے حوالے سے افغان طالبان کی کابینہ میں ٹاپ پر ہیں۔ معیشت ان کی ذمہ داری ہے۔ ملا برادر نے میگا پراجیکٹس پر بہت فوکس کررکھا ہے۔ بہت سے معاہدے انہوں نے کیے ہیں۔ ان کے کیے کام زمین پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ملا برادر کی طالبان میں منفرد پوزیشن ہے انہیں ملا عمر نے خود اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ ملا برادر بھی بار بار ملا ہیبت اللہ سے یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومتی معاملات میں کم سے کم مداخلت کریں۔ ایک بار تو ملا برادر کے ہی ہٹا دیے جانے کے حوالے سے بھی باتیں ہونے لگی تھیں۔
افغانستان کی صورتحال پاکستان پر مستقل اثر انداز ہوتی ہے۔ وہاں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے اس حوالے سے ہمارا میڈیا کم آگاہی فراہم کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس پر بات بھی کم ہی ہوتی ہے۔ حوالدار بشیر اکیلے ہی پالیسیاں بناتا رہتا ہے اور پھر ان کے نتائج پر خود بھی حیران رہتا ہے اور ہمیں بھی کہتا ہے کہ یہ کیسے اور کیا ہوگیا۔