آکسفورڈ میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے جونیئر تھے۔ شیخ نہیان کے بقول ہم انہیں کامیابیاں حاصل کرتے دیکھا کرتے تھے اور ان سے ہمارے تعلقات پرانے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان سے بھی ان کا تعلق ہے جو شاید آکسفورڈ سے ہی ہو۔ نوازشریف کا لندن میں جب آپریشن ہوا تو ہماری وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں بتایا کہ شیخ نہیان نے نوازشریف کی صحت تندرستی کے لیے ایک پیغام بھجوایا ہے۔
شیخ نہیان کتابیں پڑھتے ہیں اور موسیقی سنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کاروبار اور وزارت کو الگ الگ رکھتے ہیں، سیاست اور تعلقات کو بھی آپس میں نہیں جوڑتے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اندرونی سیاست پاکستانیوں کا کام ہے اور یہ بھی کہ میں اتنے عظیم لوگوں کو کوئی مشورہ نہیں دیتا ان سے سیکھنے آتا ہوں۔
ان کی یہ سب باتیں آپ سہیل وڑائچ کے ساتھ ایک انٹرویو میں دیکھ سکتے ہیں۔
یہی شیخ نہیان ہیں جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 2010ء اور 2012ء کے دوران 20 لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ تب یہ متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم اور سائنٹفک ریسرچ تھے۔ مارچ 2013ء میں انہیں کلچر، یوتھ اور کمیونیٹی ڈیولپمنٹ کا وزیر بنا دیا گیا۔ ان کی سابق وزارت پر ان کے بھائی شیخ ہمدان بن مبارک کو تعینات کردیا گیا۔ 2017ء میں انہیں ٹولرینس اینڈ پیس کی وزارت کا چارج بھی دے دیا گیا۔
یہ تعلیم کے کیسے وزیر تھے یہ جاننا ہو تو فنانشل ٹائمز کی رپورٹ پڑھ لیں جس میں ان کی کوششوں کا ذکر ہے کہ کیسے وہ دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں کے کیمپس اپنے ملک لارہے تھے۔ کیسے پروفیسر ان کے حق میں بول رہے تھے۔ ان کو کیسی شاندار آفرز کی جارہی تھیں۔ ایک پروفیسر فنانشل ٹائمز کو بتاتے ہیں کہ یہ کوئی اتھارٹیرین ملک نہیں ہے یہاں بس بادشاہت ہے۔ ان سے پوچھا یہ گیا تھا کہ ایک طرف جمہوریت اظہار رائے کی باتیں اور دوسری طرف امارات میں یونیورسٹی بنانا۔
شیخ نہیان جب ان یونیورسٹیوں کے کیمپس کے لیے امریکا میں مہم چلا رہے تھے تو وہاں انہوں نے ایک جملہ کہا کہ ہم جو تعلق بنانے جا رہے ہیں یہ کیتھولک شادی جیسا ہے جو ہمیشہ رہے گا۔
ایک جگہ یہ اپنی وزارت کی مشکل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا ایک تہائی بجٹ ہائی گریڈ کر جانے والے بچوں پر لگ جاتا ہے۔ ان کو یونیورسٹی جانے کے قابل کرنے کے لیے خرچے کے علاوہ 2 سال کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔
ٹولرینس اینڈ پیس کی وزارت میں شیخ نہیان کی آمد کے بعد پوپ کی پہلی بار امارات آمد ہوتی ہے۔ ایک مندر کا افتتاح ہوتا ہے اور بہت کچھ ایسا پورے تھراٹل سے شروع ہوتا ہے جس کی ابھی ہمیں سمجھ تک نہیں آرہی۔
ایک پاکستانی صحافی نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ شراکا وہ پلیٹ فارم ہے جو ابراہام اکارڈ کے بعد بنایا گیا۔ امن سے متعلق وزارت جو کچھ کررہی ہے شراکا بھی وہی کررہے ہیں۔ مراکش، اسرائیل، بحرین اور متحدہ عرب امارات سے لوگ اس پلیٹ فارم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ایسے بہت سے پروگرام اب امارات میں شروع ہورہے ہیں۔
اب ادھر رک کر 2010ء کے شروع کی ایک کہانی سنیں۔ یہ وہ سال ہے جب متحدہ عرب امارات میں 10 مہینوں کے دوران 2 اہم واقعات ہوتے ہیں جو شاید گیم چینجر رہے لیکن ان کا اتنا نوٹس نہیں لیا گیا۔ یہ وہی 2010ء کا سال ہے جب عارف نقوی نے اپنی اسٹیٹ میں پہلی بار ٹی20 کا ٹورنامنٹ کرایا۔ اسی دوران 20 لاکھ ڈالر شیخ نہیان کی طرف سے پی ٹی آئی کو دیے گئے۔ ان سب واقعات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیں پھر آگے چلتے ہیں۔
جنوری 2010ء میں ایک فلسطینی اور اس سے پہلے مارچ 2009ء میں ایک روس نواز چیچن امارات میں مارے جاتے ہیں۔ چیچن والا واقعہ زیادہ ہائی لائٹ نہیں ہوتا لیکن دوسرا واقعہ امارات کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ تاثر بُری طرح متاثر ہوتا ہے کہ امارات ایک محفوظ ملک ہے۔ دوسرے واقعے کا الزام اسرائیلیوں پر آتا ہے۔
ہارٹز اخبار کا کہنا ہے کہ جب یہ واقعہ ہوتا ہے تو اسرائیل کا اہم ترین شخص امارات ہی میں تھا۔ اس کو اس واقعے کا بتانے کی اسرائیلی ایجنسی زحمت ہی نہیں کرتی۔ وہ جب اماراتی ولی عہد محمد بن زاید ال نہیان (ایم بی زیڈ) سے ملتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ اسرائیلوں کو پتا نہیں تھا۔
بروس کشدان اس بندے کا نام ہے۔ یہ پس منظر میں گھومتا اتنا طاقتور فرد ہے کہ ہر اسرائیلی معاملے میں اس کا کردار ملتا ہے۔ اس کو کنسلٹنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ کانٹریکٹ پر موساد میں کام کرتا تھا یا ہے۔ بظاہر دونوں ملکوں کے تعلقات اوپر نیچے ہوجاتے ہیں لیکن پس منظر میں ایک رابطہ موجود ہے۔ کشدان کو ہارٹز نیوز سائٹ اس 25 سال طویل محنت کا کریڈٹ دے رہی ہے جس دوران اس نے اپنے رابطے استوار کیے۔ یہ بندہ اتنا اہم ہے کہ اس کو ان مواقع پر بھی لے جانے سے گریز کیا جاتا ہے جو منزل پر پہنچائے ہی اس نے ہوتے ہیں۔ ابراہام اکارڈ کے پس منظر میں اس کا بھی بہت کام ہے۔
اب رچرڈ کلارک کی سنیں، نیویارک ٹائمز کے بقول یہ وائٹ ہاؤس میں اینٹی ٹیررازم کے زار رہے۔ پھر ان کو متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے ٹیررازم پر اپنا مشیر بنا لیا۔ رچرڈ کہتے ہیں کہ ’مجھے اچانک ہی کال آتی کہ ایم بی زیڈ بول رہا ہوں تیار ہوجاؤ۔ کبھی ایم بی زیڈ کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر صحرا جاتا اور ادھر سولر سے پانی کے نکالنے کے کسی منصوبے کو دیکھتا اور کبھی کچھ اور۔
’ایسے ہی ایک دن ایک فون آیا کہ تیار رہو گاڑی بھیج رہا ہوں۔ گاڑی کے سفر میں مجھے لگا کہ شاید اغوا ہی ہوگیا ہوں۔ جب ایک کمپاؤنڈ میں اتارا گیا تو گولیاں چلنے کی آواز آ رہی تھی۔ اندر جاکر دیکھا تو ایم بی زیڈ ایک کرسی پر بیٹھے تھے۔ ساتھ ان کی بیگم بیٹھی تھیں۔ سامنے لڑکیاں فائرنگ کی پریکٹس کر رہی تھیں جو ان کی بیٹیاں اور بھتیجیاں تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی کہا کہ میں ایک ڈرافٹ بنا رہا ہوں۔ اس ملک کے ہر شہری کو ذمہ دار ہونا چاہیے۔ ان میں کئی سست اور موٹے ہیں۔ اس ڈرافٹ پر جب عمل ہونے لگا تو یو اے ای کی شکل بدلنے لگی‘۔
ارٹز کی ایک رپورٹ بھی ایم بی زیڈ کو مشرقِ وسطی کا طاقتور ترین شخص کہتی ہے اور ہیڈ لائن ہے کہ کیا ولی عہد میکاولی ہیں، مسولنی یا دونوں؟
اس رپورٹ میں سابق امریکی صدر بارک اوباما سے ان کی دوستی کا احوال ہے۔ دونوں کا ہر وقت رابطہ رہتا تھا۔ جب ایران کے ساتھ امریکا کی ڈیل ہونے لگی تو دونوں کا تعلق خراب ہوگیا۔ پھر ایک وقت میں انہوں نے اوباما کے ساتھ طے شدہ ملاقات کینسل کرکے تب ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر سے ملاقات کی جب وہ ابھی صدر بھی نہیں بنے تھے۔
اوباما نے ایک وقت میں مصر پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اخوان کی جمہوری فتح ہونے کے بعد صدارت میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ اس نے بھی ایم بی زیڈ کو بدمزہ کیا۔
ایم بی زیڈ پھر ہر جگہ شدت پسندی کے خلاف میدان میں اترے۔ مصر، لیبیا، صومالیہ اور یمن میں بھی۔ ان کا اپنا انداز تھا۔ یمن میں انہوں نے بلیک واٹر کی مدد سے کولمبیا اور جنوبی افریقہ سے کرایے کے سپاہیوں کو میدان میں اتارا۔ جو فورس انہوں نے تیار کی تھی اس کا سعودیوں سے ہی میچ پڑگیا۔ ان معاملات کے بعد امارات پر جرائم کے بہت سے الزامات لگنے لگے اور امریکی کانگریس اور اسٹیٹ آفس کا دباؤ بڑھنے لگا۔
رچرڈ مزید بتاتے ہیں کہ ‘2013ء میں ایم بی زیڈ مستقبل کے حوالے سے پریشان ہوچکے تھے۔ اخوان سے تنگ تھے اور عرب بہار سے بھی کہ مصر اور تیونس اس لہر کا شکار ہوچکے تھے۔ بشار الاسد اسلامی شدت پسندوں کے نرغے میں تھے۔ داعش عراق پر قبضہ کر رہی تھی۔ ایم بی زیڈ ہر قسم کے شدت پسندوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ شیعہ ہوں یا سنی انہیں شدت پسند ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے وسائل شدت پسندی کا مقابلہ کرنے میں جھونک دیے اور 1300 ارب ڈالر کے ویلتھ فنڈ کے ساتھ یہ دنیا کے ایک طاقتور ترین شخص ہیں۔
پھر ایک دن امارات کے ساری ریاستوں کے سربراہان نے اس بیکار جنگ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ متحدہ عرب امارات میں صدارت روٹیشن پر ملتی ہے مگر اس نظام پر بہت عرصے سے عمل نہیں ہو رہا اور مسلسل یہ صدارت ابوظہبی ہی کے پاس ہے۔ امریکا کے بیرونی دباؤ اور اندرونی صورتحال کی وجہ سے ایم بی زیڈ اس جنگ سے نکل گئے۔ انہوں نے پھر اسرائیل سے تعلقات جو ویسے بھی غیر اعلانیہ موجود تھے انہیں ابراہام اکارڈ کرکے باضابطہ کردیا۔
ہارٹز کا کہنا ہے کہ یہ ابراہام اکارڈ صرف روایتی تعلقات نہیں ہیں۔ یہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ جیو پولیٹکل ری شفل کردے۔
اب واپس آجائیں نہیان بن مبارک ال نہیان کی طرف۔ ایم بی زیڈ اگر کر دکھانے والے ایگزیکیٹو ہیں تو نہیان المبارک وہ منصوبہ ساز ہیں جو سب سوچتے اور ترتیب دیتے ہیں۔ یا اس کو الٹ کرلیں لیکن 2 کزنوں کی یہ جوڑی جو طے کرلے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔
ہمیں کسی سازش کو نہیں سوچنا۔ نہ کسی سنسنی پھیلاتی لہر پر سوار ہونا ہے۔ پاکستان کوئی گیا گزرا ملک نہیں ہے۔ سوال بس اتنا ہے کہ کیا ہمیں پتا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ یا بغیر سوچے سمجھے ہم کبھی نقصان کرتے ہیں اور پھر سوچ سمجھ کر بھی نقصان ہی کرتے ہیں۔