دنیا میں کہیں کچھ ہوجائے وطن عزیز سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ہمارا زرعی ملک ہونا دیکھیں، یوکرین کی جنگ دیکھیں اور خوراک کی بڑھتی قیمتیں دیکھیں۔ ہمیں مہنگائی کی جو مار پڑی رہی ہے اس کی وجہ اس جنگ کی برکتیں بھی ہیں۔ اب روس کو دیکھیں اور ہماری انرجی کی قیمتوں کو دیکھیں۔ ہم روسی انرجی کے گاہک ہی نہیں تھے اور تیل شیل تو ہمیں خلیجی ملکوں سے ادھار بھی مل جاتا تھا لیکن پھر بھی ہم یہ سب کچھ بھگت رہے ہیں۔
چین ہمارا دوست ملک ہے اور ہماری مدد کو تیار رہتا ہے۔ ہم پھنسے ہوئے ہیں لیکن چین سے مدد کے اعلان تو آئے مگر مدد نہ آئی۔ ویسے چین جو پچھلے 10 سال میں قرض فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک بن گیا ہے اس کے دیے قرضوں کو امریکی ڈیٹ ٹریپ کا انگریزی نام دیتے ہیں، یعنی جس نے چین سے پیسے لیے وہ پھنس گیا۔ مثال کے طور پر سری لنکا۔
چین نے پچھلے ہفتے پاکستان کو پہلے 700 ملین ڈالر یعنی 70 کروڑ کی فنانشل سپورٹ فراہم کی ہے۔ اس کے بعد مزید مدد کا اعلان کیا۔ اس میں سے 500 ملین ڈالر بھی مل گئے۔ اب یہ مدد آئی تو امریکی ہم پر تپ گئے کہ وہ چاہ رہے تھے کہ پاکستان چین سے قرضے ری شیڈول کرائے جبکہ پاکستان نے نیا ادھار پکڑ لیا۔
یہ ہوا تو آئی ایم ایف نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا۔ اہم امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کا چینی قرضوں پر ایک بیان بھی آگیا۔ یہ وہی ڈونلڈ لو ہیں جن سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے فالورز کو سچا پیار ہے۔ ان کا ماننا ہے راجہ ریاض اور ڈونلڈ لو نے مل کر پاکستان میں کپتان کو چلتا کیا۔
چین پاکستان کی مدد کرنے سے گریز کر رہا تھا۔ چین کو انتظار تھا کہ پاکستان امریکا مذاکرات جو جاری ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اب یہ نتیجہ کچھ سامنے آچکا ہے۔
میڈیا کیمروں سے دُور افغانستان پر اہم ملکوں کے خصوصی نمائندوں کا ایک اجلاس پیرس میں ہوا۔ اس میں اقوامِ متحدہ، امریکا، فرانس برطانیہ، آسٹریلیا، ناروے، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور یورپی یونین شریک ہوئے۔ یہ اجلاس 20 فروری کو ہوا تھا۔ اس کا اعلامیہ 20 دن بعد 8 مارچ کو جاری ہوا ہے۔
اعلامیے میں افغانستان کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ وہاں لوگوں کو درپیش مشکلات، خواتین کی تعلیم پر پابندی، طالبان کی دوحہ معاہدے میں ضمانتوں وغیرہ کا ذکر ہے۔
ہمارے حوالے سے اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان دہشتگرد گروپوں کا ذکر کیا گیا ہے جو پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ امارات اسلامی افغانستان سے کہا گیا ہے کہ داعش، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے دہشتگرد گروپ خود افغانستان کے لیے خطرہ ہیں اور ان گروپوں سے اس کے ہمسایہ ممالک، اس پورے خطے اور اس سے بھی آگے ساری دنیا کو تھریٹ ہے۔ امارت اسلامی ان گروپوں کو کنٹرول کرے اور ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
پیرس اعلامیہ ٹیرر ازم پر پاک امریکا مذاکرات مکمل ہونے کے بعد آیا ہے۔ کرسٹوفر لینڈ برگ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے کاؤنٹر ٹیررازم کے لیے ایکٹنگ کوآرڈینیٹر ہیں۔ کرسٹوفر لینڈ برگ کی قیادت میں امریکی وفد نے اسلام آباد میں مذاکرات کیے۔ اس موقع پر جن امور پر فوکس رہا وہ وسیع البنیاد اور دلچسپ ہیں۔ کیپسٹی بلڈنگ، کاؤنٹر ٹیررازم، منی لانڈرنگ، جسٹس سیکٹر، ریجنل کاؤنٹر ٹیررازم لینڈ اسکیپ اسیسمنٹ، سائبر سیکیورٹی، کاؤنٹرنگ وائلنس ایکسٹریم ازم اور ان سب کے حوالے سے امریکی معاونت پر بات ہوئی۔
یہ بات چیت بہت مثبت سمت میں آگے بڑھی ہے۔ اس کی ایک نشانی پیرس کانفرنس کا اعلامیہ ہے۔ پیرس اعلامیے میں پاکستانی حوالے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پیرس کانفرنس کا اعلان 20 دن بعد جاری کرنے کی ایک وجہ پاک امریکا مذاکرات کا انتظار بھی تھا۔
اٖفغانستان پر اب آئندہ منصوبہ ہے کیا
یہ ساری کوششیں جو ہو رہی ہے اس میں افغانستان کے اندر رجیم چینج کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ افغان طالبان کے اندر جو اختلافات کُھل کر سامنے آئے ہیں اس حوالے سے سارے اسٹیک ہولڈر کوئی مشترکہ پالیسی اختیار کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں انکلیوسیو (وسیع البنیاد) حکومت کی ایک نئی کوشش کی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں سرگرم دہشتگرد گروپوں پر دباؤ بڑھائے جانے کا پورا امکان ہے۔
یہ ساری کوشش تب ہو رہی ہے جب یوکرین پر روسی حملے کا سال مکمل ہو رہا ہے۔ امریکا میں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد جو اسپیس پیدا ہوئی اس نے روس کو یوکرین والے ایڈونچر پر اکسایا ہے تو افغانستان میں متعلق اور مؤثر رہا جائے۔ جس کے لیے تمام اتحادی آن بورڈ ہوں اور پاکستان کو حسبِ معمول اس میں سینٹر اسٹیج پر رکھا جائے۔
اس نئی ریجنل شفٹ میں امریکا اور مڈل ایسٹ پاکستان انڈیا کو اکٹھے چلانے کی کوشش کرنے کے لیے پس پردہ بہت محنت کر رہے ہیں۔ ہماری لُچ فرائی کرنے کی صلاحیت دنیا کو معلوم ہے اس وجہ سے ہمیں معاشی دباؤ میں رکھ کر پہلے معاملات سیٹل کیے جارہے ہیں۔ اس کے بعد ریلیف کا مرحلہ آئے گا۔
آج کی ساری تحریر امریکا چین افغانستان کی طرف گھومتے پھرتے ہی مکمل ہوگئی۔ برادر عرب ملک، ترکی اور ہمارا شریک انڈیا ان سب کے اینگل سے بات ضروری ہے جو آئندہ ہوگی۔ ہمارا سینڈوچ تو نہایت کامیابی سے بنا لیا گیا ہے لیکن کھانے کی سب کو حسرت ہی رہنی ہے۔ اس کی وجہ ہماری سمجھ داری وغیرہ ہرگز نہیں ہے۔ ہمارا ایک چھوٹا سا انکار یا اقرار سارا خطہ اوپر نیچے کرسکتا ہے۔ اس بات کا ہمارے سارے مداحوں اور شریکوں کو پتہ ہے۔