سعودی عرب کی کنگڈم ہولڈنگ کمپنی نے روس کی 3 انرجی کمپنیوں میں 50 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ یہ سرمایہ کاری اس سال فروری سے مارچ کے دوران کی گئی۔ روس-یوکرین کی جنگ 24 فروری کو شروع ہوئی تھی اور جنگ شروع ہونے اور اس کے بعد خاموشی سے یہ سرمایہ کاری کی گئی۔ بظاہر سعودی کمپنی روسی انرجی کمپنیوں کے گرتے ہوئے شیئر خرید رہی تھی۔
کنگڈم ہولڈنگ کمپنی ارب پتی سعودی شہزادے الولید بن طلال کی ملکیت ہے۔ اس کے تقریباً 17 فیصد حصص سعودیہ کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت ہیں۔ اس انویسٹمنٹ فنڈ کی سربراہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے روس-یوکرین جنگ کے بعد روس پر پابندیاں بھی نہیں لگائیں ہیں۔ تیل کی بڑھتی قیمتوں سے سعودیوں نے بہت کمائی کی ہے اور انہیں روس-یوکرین جنگ کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہ خبر یروشلم پوسٹ نے دی اور سعودیوں کی طرف پورا دھیان ڈلوایا کہ دیکھو دیکھو یہ خفیہ طور پر روسیوں کی مدد کر رہے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کی اس خبر کا ایک فوری جواب امریکی نیوز سائٹ بلوم برگ میں آتا ہے اور ایک رپورٹ چھپتی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ سعودیوں نے اس سال امریکا میں 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری پبلک انویسٹمنٹ فنڈ سے کی گئی ہے۔ ایمازون، الفابیٹ، بلیک راک، جے پی مورگن اور ان کے علاوہ فیس بک اور پے پال اور دوسری بہت سی کمپنیوں میں سعودیوں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ جو اعداد و شمار دستیاب ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی انویسٹمنٹ فنڈ نے جہاں سرمایہ کاری کی ان شیئرز کی قیمت 3 ارب ڈالر کم بھی ہوچکی ہے۔ یعنی سعودیوں نے ایک وقتی نقصان بھی برداشت کیا ہے۔
سعودی انویسٹمنٹ فنڈ کے پاس اندازاً 620 ارب ڈالر کا سرمایہ ہے۔ سعودی ولی عہد اس انویسٹمنٹ فنڈ کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں بہت کچھ خرید رہے ہیں۔ اس سے وہ 2 مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک وہ انویسٹمنٹ فنڈ کو دگنا کرنا چاہ رہے ہیں وہ بھی 2025ء تک۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ تیل پر سے سعودی معیشت کا انحصار کم کردیا جائے۔
متحدہ عرب امارات کے حکمران محمد بن زید 1300 ارب ڈالر کے ویلتھ فنڈ کے مالک ہیں۔ یعنی سعودی انویسٹمنٹ فنڈ ڈبل ہوکر بھی ان سے تھوڑا کم ہی رہے گا۔
جیرڈ کشنر کہتے ہیں کہ ’ہم بہت پُرجوش تھے جب امریکی، اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے لیڈروں کی فون پر بات ہوگئی۔ ابراہام اکارڈ حقیقت بنتا دکھائی دیا‘۔ ان ابتدائی کلمات سے شروع کرکے اسرائیلی نیوز سائٹ کہتی ہے کہ اب لگتا ہے کہ ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا۔
ابتدائی خواب تھے کہ ہائی ٹیک، سیکیورٹی، گرین انرجی، سائبر، اسپیس اور بہت سے شعبوں میں تعاون ہوگا۔ اسرائیلی سمجھ رہے تھے کہ اماراتی سرمایہ تل ابیب میں اڑتا آئے گا جبکہ دبئی کو امید تھی کہ ٹیکنالوجی ایجادات کے زمانے آئے۔ سب کچھ اچھا جا رہا ہے، لیکن رفتار سُست ہے۔ تجارت بڑھی تو ہے مگر سرمایہ الٹا اسرائیل سے امارات جا رہا ہے۔ اسرائیل نے بس ہیرے بیچے ہیں جو وہ صرف پراسس ہی کرتا ہے اس کی اپنی پروڈکٹ نہیں ہیں۔
اسرائیلی کمپنیاں چھوٹی ہیں اور امارات کے قوانین عجیب ہیں، یعنی آپ کو مقامی پارٹنر چاہیے ہوتا ہے۔ امارات کی 2 ریاستیں اجمان اور فجیرہ ابراہام اکارڈ پر ہی معترض ہیں۔ اماراتیوں کے پاس اپنا پیسہ بہت ہے جو وہ دیکھ بھال کر لگاتے ہیں۔ اسرائیلی کمپنیاں ان کی طرح سرمایہ کاری نہیں کرتی ہیں۔ اماراتی حیفہ بندرگاہ کا انتظام سنبھالنا چاہتے تھے۔ وہاں وہ سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے تھے لیکن وہ اسرائیل نے روک دی۔ اسرائیلی کہتے ہیں کہ ہنی مون اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ نمبر بھگوان ضرور ہوتے ہیں، شروع میں امارات جانے والی پروازیں کاروباری لوگوں سے بھری ہوتی تھیں۔ ابراہام اکارڈ رہے گا لیکن سرمایہ کاری زمینی حقائق کے مطابق اپنی رفتار سے ہی ہوگی۔
یہ 3 رپورٹ پڑھیں تو سمجھ آتی ہے کہ سعودی اور اماراتی دنیا کے بڑے سرمایہ کاری فنڈ کے مالک ہیں لیکن پیسے وہ بہت سوچ سمجھ کر لگاتے ہیں۔ اصول بہت سادہ ہے کہ منافع ہوگا تو پیسے لگا دیں گے اور بہت لگا دیں گے۔ پاکستان کے حوالے سے ان ملکوں کے خیالات کوئی آج سے نہیں بدلے۔ اس میں وقت لگا ہے اور دھیرے دھیرے تبدیلی آئی ہے۔
واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ پاک-سعودی تعلقات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کے مطابق پاک-سعودی تعلقات ایک دم سے ایسے نہیں ہوئے اس میں پوری ایک دہائی سے زیادہ وقت لگا ہے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کے دور سے یہ تعلق بدلنا شروع ہوا۔ نوازشریف دور میں تھوڑا سنبھلا لیکن پھر بدل گیا، جبکہ عمران خان کے دور میں بھی یہی ہوا کہ ذرا سا سنبھل کر پھر خراب ہوا۔
سابق سعودی انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل کبھی کہتے تھے کہ پاک-سعودی تعلقات بے مثال ہیں۔ یہ دنیا میں 2 ملکوں کے درمیان سب سے مضبوط تعلقات ہیں اور کسی باہمی معاہدے کے بغیر ہیں۔ اب سعودی عرب میں بہت سے پاکستان دوست شہزادے سائڈ لائن ہو چکے ہیں۔
امارات اور سعودی عرب میں نئی قیادت پاکستان سے پوچھتی ہے کہ آپ کے پاس ہمارے لیے کیا ہے؟ یعنی ہمارا کیا فائدہ ہے؟ جب محمد بن سلمان پاکستان آئے تو 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بات ہوئی۔ وہ ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان پہنچے لیکن پاکستانی نہ تو اس آفر کو سمجھے نہ اس کے لیے تیار تھے۔
المختصر یہ کہ بات وہی ہے جو علامہ اقبال نے کہا کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں
کوئی سائل ہی نہیں
سرمایہ ہمیشہ منافع کے پیچھے جاتا ہے۔ ہمارے پاس ایسا کیا آئیڈیا ہے کہ جس پر کوئی چار پیسے لگا دے؟ ہم کچھ نیا اور کچھ بڑا شروع بھی تو نہیں کرتے، کوئی نئے شہر بنائیں، نئی بندرگاہیں شروع کریں، ریل کے ذریعے ملکوں کو ایک دوسرے سے جوڑیں اور کوئی بڑے ٹیکس فری اکنامک زون بنائیں۔ کچھ بڑا سوچیں اور بڑا کریں تو سعودی، اماراتی اور دنیا بھی پیسے لگانے آجائے گی۔ بس سرمایہ کاری اور کمانے والا ماحول تو بنائیں ذرا ۔
سعودی اور اماراتی کمائی دیکھتے ہیں تو انڈیا میں بھی سرمایہ کاری کر آتے ہیں اور جنگ آزما پابندیوں کے شکار روس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ توازن رکھنے کو امریکا میں کئی گنا زیادہ پیسے لگا دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ایک، ایک اور 2، 2 ارب کے لیے ان کی طرف پھیرے مارتے رہتے ہیں کہ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا کیونکہ ہم مانگتے ہیں اور ان کو کمانے کا موقع اور آئیڈیا نہیں دیتے۔