ایران کو کوہ سبز پنجگور میں حملے کا جواب مل گیا ہے۔ پاکستان نے سیستان بلوچستان میں سراوان میں 7 مقامات کو نشانہ بناکر یہ جواب دیا۔
ایران کے ان حملوں کا پس منظر کیا ہے، آئیے یہ جانتے ہیں۔
15 دسمبر 2023 میں سیستان بلوچستان کے رسک شہر کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ ہوتا ہے۔ اس حملے میں ایرانی سیکیورٹی فورس کے 11 ارکان مارے جاتے ہیں، جس کی ذمہ داری جیش العدل قبول کرتی ہے۔
25 دسمبر کو ایرانی بریگیڈیئر جنرل سید رضا موسوی دمشق کے پاس ایک حملے میں مارے جاتے ہیں۔ موسوی اسلامی انقلابی گارڈ کے سینیئر مشیر تھے۔ یہ شام میں سرگرم انقلابی گارڈ کے ایک مؤثر ترین کمانڈر مانے جاتے تھے۔ یہ تب مارے گئے جب ایرانی سفیر سے ملاقات کرکے آئے تھے۔ ایران نے اس حملے کا الزام فوری طور پر اسرائل پر لگایا۔
3 جنوری 2024 کو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی یادگاری تقریب میں دھماکا ہوا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ اس حملے میں 100 کے قریب افراد مارے گئے تھے۔ یہ سارے واقعات غزہ میں جاری جنگ کے بعد شروع ہوئے ہیں۔
غزہ کی لڑائی حماس کے حملوں سے شروع ہوئی تھی اور ایران حماس کی حمایت کرتا ہے۔ ایران نے ان سب حملوں کو اسرائیل کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر اس نے 15 اور 16 جنوری کو عراق، شام اور پاکستان میں کارروائی کی۔
پاکستان نے اپنے قیام سے اب تک عرب و عجم کی محاذ آرائی میں غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان کی اس پالیسی کو عرب بھی سراہتے آئے ہیں اور ترکی ایران بھی۔ ایران-عراق جنگ میں بھی پاکستان نے فریق بننے سے گریز کیا اور ایران کو خوراک کی فراہمی جاری رکھی۔ یمن کی لڑائی سے بھی پاکستان دُور رہا اور اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے پاکستان نے ہر طرح کا دباؤ بھی برداشت کیا۔
ایران کے ساتھ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان نے بہت سے معاہدے کیے ہیں۔ یو این کے ٹی آئی آر پروٹوکول کے تحت ضروریاتِ زندگی کی خطے میں آزادانہ سپلائی تک رسائی حاصل کی ہے۔ ایران کے ساتھ سرحدی تجارت، دہشت گردی کے خلاف تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے ہوئے ہیں جبکہ قیدیوں کے تبادلے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ تجارتی سامان کی نقل و حرکت کے لیے مشکلات اور ڈبک ٹیکس کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات پر بات چیت اور سمجھوتے ہو رہے ہیں۔ افغانستان پر دونوں ملکوں نے مشترکہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
افغانستان پر ایران کے خصوصی نمائندے حسن کاظم اتوار کو پاکستان کے 3 روزہ دورے پر پہنچے تھے۔ ان کے وفد نے اہم ملاقاتیں کی تھیں۔ خود ایرانی وزیرِ خاجہ نے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر نگران وزیرِاعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات ایرانی حملے سے چند گھنٹے قبل ہوئی تھی۔
ایران پاکستان جوائنٹ بارڈر کمیٹی کا 11واں اجلاس چاہ بہار ایران میں جاری تھا۔ حملوں کے بعد پاکستان کا 35 رکنی وفد اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آگیا۔ اس وفد میں بلوچستان سے اعلی افسران تجارتی نمائدے شامل تھے۔ وفد کی قیادت چیف کلیکٹر کسٹم آفتاب اقبال میمن کر رہے تھے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے جائز سوال اٹھایا کہ اتنی زیادہ ہائی لیول میٹنگ اور رابطوں کے باوجود ایران نے یکطرفہ کارروائی کی۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ کو جب ایرانی وزیرِ خاجہ نے کال کی تو پاکستانی ہم منصب کا کہنا تھا کہ پاکستان جواب کا حق رکھتا ہے۔
ایران نے پاکستان سے متعلق غلط اندازہ لگایا ہے۔ 25 کروڑ آبادی کا ملک، دنیا کی چھٹی بڑی فوج، 300 ارب ڈالر پلس کی معیشت، چین اور انڈیا کا فوری ہمسایہ، پاکستان اس بات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کو کوئی یوں نشانہ بنا دے اور اس کا پھر کوئی جواب نہ دیا جائے۔ لٹ ہی نہیں پڑگئی؟
پاکستان دفاعی ٹیکنالوجی میں کئی حوالے سے خود کفیل ہے۔ دنیا میں گنتی کے چند ملک ہیں جو فائٹر جیٹ بناتے ہیں یا دُور مار میزائل کی ٹیکنالوجی رکھتے ہیں۔ تو جواب آنا تھا آگیا۔
اب معاملہ یہاں رک جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران سے جو بیانات آرہے ہیں ان میں کہا جا رہا ہے کہ جن کو ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ ایرانی شہری نہیں تھے۔ جہاں حملہ ہوا وہاں ریاست کا مؤثر کنٹرول نہیں ہے۔ ایک طرح سے ایران پیچھے ہونے کا سگنل دے رہا ہے۔
ہم پاکستانیوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نہ خود کو ٹھیک سے پہچانتے ہیں اور نہ اپنے ملک کی طاقت اور پوزیشن کا درست اندازہ رکھتے ہیں۔ ایران جسے چھیڑنے سے امریکا، یورپ اسرائیل اور جانے جانے کون گھبراتا ہے، پاکستان نے اس کی جانب سے ہوئی غلطی کا بھرپور جواب دیا ہے اور ان چیک نہیں جانے دیا۔ سنائیں پھر کچھ حوصلہ ہوا؟ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔